HEER RANJHA
A REAL, TRUE STORY
HEER RANJHA
A REAL TRUE LOVE STORY
سچے پیار کی لازوال داستان
ہیر ایک جاٹ هاندان سے تلك رکھتی تھی اور رانجھا بھی ایک جاٹ گھرانے سے منسلک تھا دونوں کے درمیان ایک چناب دریا تھا ہیر بہت ہی حوبصورت اور اپنے علاقے کی سب سے زیادہ حسین مانی جاتی تھی اور رانجھا بھی ہیر جیسا ہی نہایت حسین اور جوان تھا دریاے چناب کے کنارے ایک گاؤں میں رہتا تھا رانجھا چار بھائی تھے اس کے تین بھائی کھیتی بھاڑی کرتے تھے لیکن رانجھا باپ کا بہت لاڈلا بیٹا تھا سارا دن جنگلوں میں بانسری بجاتا رہتا تھا مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے اس نے بہت کم دکھ دیکھے تھے جب رانجھا کا باپ فوت ہوا تو اس کا مشکل ترین وقت شرو ع ہو گیا پہلے زمین کے تنازے پر بھائیوں سے جگھرا ہوا پھر بھائیوں نے اسے کھانا دینے سے معنا کر دیا یہ کہانی وارث شاہ نے لکھی تھی اور ان کے مطابق ہیر جھنگ کے نواب سيال خاندان کے ایک شخص چوچک کی بیٹی تھی جس کے حسن کی داستان چاروں آلم پھیل چکی تھی قصبھہ تحت ھزاراں ضیلاع کا رہائیشی رانجھا جو ھود بھی مردانہ حسن کا نمونہ تھا اس نے ہیر کے حسن کی کافی تعریف سن رکھی تھی اور اسی کے حیالوں میں گھم رہنے لگا رانجھا کے بھائیوں نے بھی اس سے موں موڑ لیا اور ایک دن رانجھا کی بھاوج نے اسے طعنع دیا کے کوئی کام کرتا نئی اور مفت کی روٹی توڑنے آ جاتا ہے. روز اسے اس کی تمام بھاوجھے طعنے دینے لگی اور کہا کے تم جھنگ کی ہیر سيال کے پاس چلے جاؤ اب ہیر ہی تمہارے لیے روٹی بنایا کرے گی ایک دن رانجھا اپنی بھاوجہوں کے طعنوں سے تنگ آکر جھنگ کی طرف چل دیا جھنگ بیہلے میں سفر کرتا ہوا جب چناب دریا کے کنارے پہنچا تو ایک آراستہ کشتی کو آتے دیکھا بہت تهكاوٹ کی وجہ سے رانجھا کشتی میں سوار ہوا اور ادھر ہیسو گیا پچھلے پہر ہیر اپنی سھیلیوں کے ہمراہ کشتی میں پہنچی تو ایک اجھنبهی کو سوتے دیکھا تو اس کی نوابی حس بھڑک اٹھی اس نے رانجھا کو نیند سے جهگها دیا اور بہت سہتی کے ساتھ رانجھا سے پیش آئ اور دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا ہیر پہلے بہت گھسے میں تھی پر جب حوبصورت نوجوان کی نظروں میں دیکھا تو نہایت ٹھنڈی پر گئی یہ پہلی ملاقات دونوں کے درمیان مستکل عشہق کی بنیاد بن گئی چوچک نے ہیر کی سفارش پڑ رانجھا کو بھینس چرانے کے لیے رکھ لیا دونو ں کے درمیان تعلقات بھرتے گے اور دونوں رفتہ رفتہ قریب آنے لگے رانجھا ہیر کی بھینس لے کر جهنگل میں جاتا اور ہیر گھی میں گھوندهی ہوئی روٹی بنا کر اسے دینے جاتی ہیر کا چاچا کیدو لنگڑا یہ تمام واقع جان چکا تھا اس نے اپنے بھائی چوچک سے کہا کے ہیر رانجھا کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور هاندان کی عزت ہراب کرنے پڑ تلی ہوئی ہے لہٰذا رانجھا کو یہاں سے نکال دو چوچک نے پھلے تو کیدو کی باتوں کو سریس نہ لیا اور پھر ایک دن کیدو چوچک کو لے کر جهنگل پہنچا اور دونو ں کی ملاقاتوں کا مشاھدہ کرایا چوچک نے رانجھا کو کام سے نکال دیا اور ہیر کا رشتا سیہد قوم کے ساکن رنگ پورہ کے ایک رہایشہی سے طے کر دیا اور ادھر رانجھا کی ادهم مجھودگی میں چوچک کی بھینسوں نے اداس رہنا شرو ع کر دیا اور دودھ تک دینا بند کر دیا وہاں رانجھا ہیر کے لیے بےقرار اور ہیر محل میں معضطرب تھی ہیر کا نکاح سید کھیرو سے ہو گیا اور ہیر رنگ پور چلی گئی مگر رانجھا کے لیے اداس پریشان رہنے لگی اس نے کھرو کو اپنا شوہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی ایک سہیلی جو کے اس کی نند بھی تھی اسے مل کر بہت سکون ملا کیوں کے سہتی کو بھی کسی مراد نامی شھص سے محبت تھی پڑ ان دونو ں کے درمیان بھی ایک دیوار حایل تھی رانجھا ہیر سے ملاقات کے لیے بےقرار رہتا اس نے ایک ہندو بھال نات کو اپنا مرشد بنایا اور اس کے مشورے سے سادھو بن گیا کان چھدوا لیے اور بھیس بدهل کررنگ پور پہنچا اور ہیر کے سسرال سید و کھرو پہنچ کر صدا لگائی ہیر اور سہتی سادھو کو حیرات دینے باہر آی ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا اور رانجھا نے بھی دونو ں ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت حش ہوے رانجھا نے رنگ پور میں ہی ڈہیرہ ڈھال لیا اور روز ہیر سے ملنے حیرات کے بہانے جایا کرتا بلآحر ہیر نے سيهتی کے ساتھ مل کر ایک پروگرام بنایا اور ہیر کو سانپ نے ڈ ھس لیا اور ہیر نے کہا کہ اس کا علاج اسی سادهو کے پاس ہے لہٰذا سادهو کو بھلایا گیا اور دونوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا سہتی نے دیوار میں نقب لگائی اور ہیر رانجھا وہاں سے بھاگ گے اور سہتی بھی اپنے مراد کے پاس پہنچ گئی کچھ کا ماننا ہے کہ دونوں کو مار دیا گیا تھا اور کچھ کا کہنا ہے کے صرف رانجھا کو قتل کیا گیا اور ہیر کی لاش محل سے ملی پر ان کی سچی محبت کی داستان آج بھی موجود ہے ان دونوں کا میزار پنجاب کے ضلع جھنگ میں آج بھی قآیم دایم ہے